Ghazwa e Badar - Complete Information, Lessons to Learn - Earn And Earn

 
Ghazwa e Badar - Complete Information, Lessons to Learn - Earn And Earn
 Ghazwa e Badar - Complete Information, Lessons to Learn - Earn And Earn

غزوة بدر

قریش مکہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے سخت دشمن تھے۔ کے میں انہوں نے خدا کے نچے دین کو برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی یہاں تک کہ مسلمانوں کو مجبور ہجرت کر کے مدینہ آنا پڑا۔ مدینہ میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور مسلمانوں کی چھوٹی سی باقاعدہ ریاست قائم ہوگی۔ یہ بات قریش کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ وہ رات دن کی منصوبے بنانے لگے کہ کی طرح مدینہ کی اس نئی حکومت کا خاتمہ کردیا جائے مسلمانوں کو قریش کے ان ارادوں کا علم تھا، اس لیے انہوں نے یہود کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی کر لیا تھا۔ مدینہ میں عبد اللہ بن ابی نام کا ایک سردار تھا۔ حضور صلى الله عليه وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے مدینے کے لوگ اسے اپنا حکمران بنانے پر آمادہ تھےلیکن حضور کی آمد کے بعد سب لوگوں نے آپ کو اپنا حکمران مان لیا۔ اس لیے مجبورا عبد اللہ بن ابی بھی بظاہر مسلمان بن گیا لیکن دل میں مسلمانوں سے سخت بغض رکھتا تھا۔ قریش مکہ نے اسے لکھا کہ تم نے ہمارے آدی کو اپنے یہاں پناہ دی ہے یا واتقل کر دیا اپنے یہاں سے نکال دو ورنہ ہم مدینے پر حملہ کر کے ہیں فنا کردیں گے.

حضور صلى الله عليه وسلم کو اس بات کا علم ہو گیا تو آپ نے عبد الله بن ان کو مجھایا کہ اکثر اہل مدینہ مسلمان ہو چکے ہیں، اس لیے تم اپنے بھائیوں بیجوں سے کیسے لڑو گے؟ چنان عبدالله قریش کی خواہش پول نہ کر سکا، اس پر قریش مکہ کا غصہ اور بھی بڑھ گیا۔

قریش مکہ کے تجارتی قافلے شام کو جانتے ہوئے مدینہ کے نواح سے گزرتے تھے۔ مسلمان کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ قافلے انہیں نقصان نہ پہنچا میں اس لیے مدینہ کے نواح میں رہنے والے قبائل سے معاہدے کیے تھے۔ اسی اثناء میں مکہ کے ایک سردار کر زمین جابر فہری نے مدینے کی چراگاہ پر عمل کیا اور مسلمانوں کے مویشی ہلاک کر لے گیا۔ اسی دوران اطلاع بدین بن گئی اور مسلمانوں نے تعاقب کر کے مویشی چھین لیے لیکن کرز بن جابر کر نکل گیا۔ .

جنگ بدر کے فوری اسباب

عمر بن حفری کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ جو ایک ہزار اونٹوں پرمشتمل تھا ابوسفیان کی قیادت میں شام سے آرہا تھا۔ ابوسفیان کو مدینہ کے نواح میں کچھ خطرہ محسوس ہوا اور اس نے اہل مکہ سے مدد طلب کی اس پر کہ کے سردار ابوجہل نے مسلمانوں کے خلاف لشکر جمع کیا اور مدینہ کو روانہ ہوا۔

حضور صلى الله عليه وسلم کو کفار کی ان تیاریوں کی اطلاع ملی تو صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ مہاجرین نے جوشیلی تقریریں کیں۔ اسی طرح انصار کی جانب سے حضرت سعد بن عبادہ نے اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔ اب حضور تین سو تیره جاشاروں کے ساتھ شہر سے باہر نکلے اور مدینہ سے تقریبات میں میل کے فاصلے پر بدر کے میدان میں پہنچے۔ ای اثناء میں قریش کی امدادی فوج مکہ سے روانہ ہو کر بدر کے نواح میں پانچ گئی۔ یہیں انہیں اطلاع ملی کہ ابو سفیان کا قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا ہے۔ اس لیے بعض سرداروں کا خیال تھا کہ اب جنگ کرنے کی بجائے مسلمانوں سے صلح کر لینی چاہئے اور عمر بن خضری کا خون بہا لیتا ہے لیکن اس تجویز کی ابوجہل نے مخالفت کی دراصل مسلمانوں کی انتہائی کم تعداد کے مقابلے میں اسے اپنے ایک ہزار نو جوانوں پر ناز تھا۔ اس کے پاس  اسلحہ بھی بہت سا تھا اس لیے اسنے لڑائی کی حمایت کی۔

جنگ بدر کے واقعات

قریش مکہ کی آمد کی خبر سن کر حضور نے اپنے بعض صحابہ کرام کے پڑاؤ کو بدلا۔ پانی پر اپنی بہتر دسترس خاص طور پر مد نظر تھی۔ اسی طرح یہ بھی خیال رکھا گیا کہ دن چڑھے تو سورج آنکھوں پر نہ آئے لڑائی 17/رمضان المبارک 2ہجری کو ہوئی۔ اس سے پہلے رات بر حضور صلى الله عليه وسلم الله تعالی سے فن کی دعائیں مانگتے ہے۔ یہ آپ نے نماز پڑھائی اور اپنے وعظ سے مسلمانوں کو نیا جذبہ عطا فرمایا پھر مسلمانوں کی صف بندی فرمائی۔ اسلامی فوج تین حصوں میں منقسم تھی۔ مہاجرین ، بنی اوں اور بنی خزرج ہر حصے کا علمبردار الگ الگ تھا۔ . حضور نے حکم دیا کہ مسلمان صف بندی کو توڑیں اور جب تک حکم نہ ملے جنگ شروع نہ کریں۔

یہ جنگ بوی آزمائش کی جنگ تھی ۔ حق و باطل ، نور و ظلمت مبین اسلام اور کفر کی جنگ تھی اور مسلمانوں کو اپنے ہی کافر رشتہ داروں کے خلاف تلوار اٹھانا پڑی۔

سب سے پہلے عمر بن خضری کا بھائی عامرخون کا بدلہ لینے کے لیے نکلا۔ ایک مسلمان نے آگے بڑھ کر اپنی تلوار سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پھر دستور عرب کے مطابق قریش کی صفوں میں سے تین سردار عتبہ، ولید اور شیبہ نکلے۔ ان کے مقابلے کے لیے حضرت حمزہ حضرت علی اور حضرت عبیدہ خان کو روانہ کیا گیا۔ حضرت حمزہ اور حضرت علی نے عتبہ اور ولید کو جہنم واصل کر دیا لیکن شیبہ نے حضرت عبید ہنیہ کو رمی کر دیا ۔ اس پر حضرت علی ، آگے بڑھے اور تلوار کی ضرب سے شیبہ کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ اس کے بعد عام لڑائی شروع ہوئی ۔ مسلمان انتہائی بہادری سے لڑے۔ انصار کے دونوعمرلڑکوں نے ابوجہل پرعمل کر کے اسے قتل کر دیا۔ ابوجہل کی موت سے قریش مکہ کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے۔


جہاد کی اجازت

غزوہ بدر تک اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نتھی کیونکہ اسلام تو امن وسلامتی سکھاتا ہے۔ اسی لیے حضور نے مکہ میں پورے تیرہ سال انتہائی صبر سے کفار کے مظالم برداشت کیے۔ آخر مجبور ہو کر مسلمانوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر نے وطن میں قیام کیا تو نہیں یہاں بھی چین نہ لینے دیا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ اگر مسلمان جنگ نہ کرتے تو بھیڑ بکریوں کی طرح فنا ہو جاتے اور دنیا میں توحید کا پیغام سنانے والا کوئی نہ رہتا۔ ...

جنگ بدر پہلی جنگ تھی جس میں مسلمانوں نے تلوار چلائی ۔ اس میں بھی وہ خودحملہ آور نہ ہوئے بلکہ ان کے دشمن فوج لے کرنواح مدینہ میں پہنچ گئے اور مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لیے تلوار سے مقابلہ کیا۔ اس بات کی نشاندہی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں مسلمانوں کو باقاعدہ لڑائی کی اجازت دی گئی فرمایا:


جنگ بدر کی تاریخی اہمیت

جنگ بدر تاریخ عالم کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ اس میں تین سو تیرہ آدمیوں نے جو ظاہری سازوسامان سے محروم تھے ایک مہاجر سردار کی قیادت میں عرب کی سب سے بڑی سیاسی و مذہبی جماعت کے ایک ہزار جونواں کو جو سامان جنگ سے پوری طرح لیس تھے شکست دی۔ اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ دنیا کی جدوجہد میں ظاہر ساز و سامان کچھ اہمیت نہیں رکھتا دنیاوی جاہ جلال اور فوجوں کی کثرت فع کا نشان نہیں ہے بلکہ دنیا میں غلبہ اہل ایمان کو حاصل ہوتا ہے جو خلوص دل سے اسلامی تعلیمات پرعمل کرتے ہیں چنانچہ اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن میں تھوڑے سے مسلمانوں نے اپنے سے کئی گنا زیادہ مخالفین کو شکست دی۔

 

 

 

 

Post a Comment

0 Comments