Holy Prophet SAWW Source of income | Nabi pak ka zariya e rozgar - Earn And Earn

 

Holy Prophet SAWW Source of income | Nabi pak ka zariya e rozgar - Earn And Earn

نبی پاک کی معاشی زندگی   بعد از نبوت ( مکی دور )

اعلان نبوت کے ساتھ ہی آپ تقلیتی امور میں مصروف ہو گئے اور معاشی سرگرمیوں سمیت دیگر تمام مصروفیات ثانوی حیثیت اختیار کر گئیں ۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلان نبوت کے ساتھ ہی آپ صلى الله عليه وسلم کی معاشی ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں کیونکہ جولوگ آپ صلى الله عليه وسلم پر ایمان لائے تھے ان میں کم عمر بچے ، غریب افراد اور چھ ظلام بھی تھے ان لوگوں کو معاشرتی و معاشی تحفظ فراہم کرنا آنحضور کی اہم ذمہ داری تھی۔

سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم ہمہ وقت بینی امور میں مصروف رہنے کی وجہ سے معاشی جدوجہد نہیں فرماسکتے تھے پھر جیا کہ آپ پڑھ چکے ہیں آپ نے ہمیشہ اپنے مال سے معاشرے کے ضرورت مند افراد کی امداد فرمائی۔ اس موقع پر آپ نے مسلمانوں کی اعانت فرمائی۔ کتب سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نازک اور اہم موقع پر دو اشخاص نے خاص طور پر آپ کے ساتھ تعاون کیا۔ لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو بکر صدیقه یہ دونوں سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں اور مالی معاونت میں آپ کے تمام ساتھیوں پر برتری رکھتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان دونوں کا الگ الگ تذکرہ کرتے ہیں ان کا تذکرہ آپ کی معاشی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کی جس قدر مالی امداد کی وہ ایک اعتبار سے سرکار دو عالم کی ذمہ داریوں کا حصہ تھی یہی وجہ ہے کہ آپ نے ان کی معاونت کو اپنے اوپر احسان جانا اور کئی ایک موقعوں پر اس کا اظہار بھی فرمایا۔

حضرت خدیجہ رضی الله عنها

یہ سعادت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حصہ میں آئی کہ سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم کی تجارتی کوششوں سے آپ کے سرمائے کو فروغ ملا اور وہ سرمایہ معاشرے کے ضرورت مند افراد پر صرف ہوا۔ اسلام کی نشر واشاعت میں کام آیا خصوصا نومسلم غلاموں کو اس سے فائدہ پہنچا اور وہ آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوئے یوں جب مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے تقریر اپنی تو خضور انکی ایک ذمہ داری تکمیل تک پانی اور سیدہ خدین کی دولت بھی کام آگئی۔ آپ نے ان کا ذکر یوں فرمایا:

اللہ تعالی نے مجھے خدیوی سے بہتر بیوی نہیں دی ۔ وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب لوگوں نےکفر کیا، میری تصدیق کی ، جب لوگوں نے بتایا اور مال سے میری اعانت کی۔ آپ کا یہ فرمان ہماری اس معاملے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے کہ آپ نے کس طرح اپنا اور اپنی بیوی کا سرمایہ مسلمانوں کی بھلائی پر صرف کیا۔ نیز خانگی ضروریات کی بجائے کس طرح خدمت خلق ، بیکسوں کی امداد اور ضرورت مندوں کی امانت فرماتے رہے۔

معاشی اعتبار سے اعلان نبوت کے بعد کا زور مصارف کا دور تھا۔ اس کی گواہی حضرت خدیجہ رضی الله عنها دیتی ہیں کہ آپ اقربا ء پر شفقت فرماتے ہیں ، بیواؤں، یتیموں اور بیکسوں کی دستگیری کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے ہیں ۔ چنانچہ ہم پڑھتے ہیں کہ ایک مرتبہ قحط کے زمانے میں حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آنحضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے سیدہ خدیہ رضی اللہ عنہا کے مال سے انہیں 40 بکریاں اور سامان سے لدا ہوا ایک اونٹ مرحمت فرمایا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضور کی خدمت میں ایک غلام خدمت کے لیے پیش کیا تو آپ نے اسے قبول کیا اور پھر آزاد کر دیا۔ اس موقع پر آپ کے بارے میں ابوطالب کا یشعر قابل ذکر ہے:

آپ گورے چٹے ہیں، آپ کی برکت سے بارش کی دعا کی جاتی ہے۔ آپ نے تیموں کی نگہداشت کرنے والے اور بیوہ عورتوں کی آبرو کے محافظ ہیں

حضرت ابوبکر صدیق

حضرت ابو بکر صدیق سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والے مرد ہیں ، وہ بلاتامل ایمان لائے اور بہترین ساتھی بنے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے جہاں آپ کے لیے دینی و معاشرتی معاملات میں معاون رہے، وہاں معاشی امور میں بھی آپ کے ایک باوقار دگار ثابت ہوئے آپ نے اس معاونت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: و جس کسی کا ہم پر احسان تھا، اس کا بدلہ چکا دیا گیا ہے لیکن ابوبکر صدیقه کا احسان مجھ پر باقی ہے اور کسی کے مال نے مجھے اتنا نفع نہیں دیا۔ جتنا ابو بکر صدیق خان کے مال نے دیا آپ نے فرمایا کہ ابو بکر صدیق له نے نہ صرف یہ کہ میری تصدیق کی بلکہ اپنے مال و جان سے میری امدادی کی “ حضرت ابو بکر صدیقه تجارت کیا کرتے تھے۔ دولت مند اور فیاض تھے۔ ایمان لائے تو چالیس ہزار درہم کے مالک تھے۔ تمام دولت اللہ تعالی کے رسول صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں پیش کر دی۔ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کے ایماء پر صدیق اکبر خان نے بھاری رقوم ادا کر کے کئی غلام آزاد کرا لیے، جو ایمان لانے کے سبب کفار کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے ان میں بلال بن رباح، عامر بن نفیر البین، نیرہ نہید یہ اور ام میں قابل ذکر ہیں۔

ہجرت مدینہ کا جملہ انتظام بھی حضرت صدیق اکبر خان نے کیا۔ انہوں نے سواری کے لیے اونٹنیاں خریدیں ۔ ایک با اعتماد راہبر کا انتظام کیا۔ غار ثور میں تین دن رہے تو آپ کی خدمت میں کھانا ، تازہ دودھ ابوبکر صدیق کے گھر سے پانچار ہجرت کر کے تو حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے ساتھ 5 ہزار درہم لائے اور میدان کی کل پڑی تھی۔ اسے بھی آپ کی نذر کیا۔ جسے آپ نے مسلمانوں کی بھلائی صرف کے لیے صرف کیا۔

ان تفصیلات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم کی بعد از اعلان نبوت کی زندگی معاشی اعتبار سے مکمل طور پر مسلمانوں کی بھلائی کے معاملات طے کرنے میں صرف ہوئی۔ بہرحال یہ سعادت حضرت صدیق اکبر ایک بھی نصیب ہوئی کہ ان کا مال و اسباب آپ کے ذریعے سے الله تعالی کی راہ میں اور مسلمانوں کی بھلائی کے کاموں میں خرچ ہوا۔

 

متفرق معاشی امور

کفار مکہ کی ایذارسائیوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالی کے رسول نے کچھ مسلمانوں کو اجازت دی کہ وہ حبشہ کی طرف سے ہجرت کر جائیں۔ اس ہجرت کا ایک اہم فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو دینی امور کے ساتھ ساتھ معاشی معاملات میں سہولت نصیب ہوئی اور یوں شدید تر حالات میں نبوی کفالتوں کا بوجھ بھی قدرے کم ہوا۔ کفار مکہ نے مسلمانوں کا معاشرتی مقاطعہ کیا۔ اس مقاطعے کی وجہ سے سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رہنا پڑا۔ اس سے مسلمانوں کی معاشی حالت شدید طور پر متاثر ہوئی اور بہت تنگی سے وقت گزرا۔ یقیا رسول اللہ اور آپ کے جانثار ساتھیوں کے پاس جو کچھ موجود تھا وہ لے آئے تھے اور وہ مسلمانوں کی باہمی ضرورتوں میں کام آیا۔ تا ہم رسول اللہ کے اعلان نبوت کے بعد کی معاشی زندگی کا یہ خت ترین دور تھا۔ کتب سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ معظمہ کے بعض درومند حضرات چوری چھ غلہ وغیرہ پہنچا دیا کرتے تھے۔

کاروبار اور تجارت کا ربجان آپ میں موجود تھا اس لیے موقع بہ موقع خرید و فروخت فرما لیا کرتے تھے۔ اس دور میں بھی بعض موقعوں پر آپ نے غلے کا تجارتی لین دین فرمایا اور شراکت پر کاروبار بھی فرمایا قیس بن ساب جو آپ کے شریک کاروبار تھے، آپ کی دیانت اور صداقت کے معترف تھے۔

آپ نے با اصول تجارت فرمائی۔ اس لیے اگر کاروباری معاملے میں کوئی شخص زیادتی کرتا تو جس کے ساتھ زیادتی ہوتی آپ اس کا ساتھ دیتے اور اس کا حق دلانے کی کوشش کرتے ۔ ابن الق نے لکھا ہے کہ اراش‘‘ کا رہنے والا ایک تاجر کچھ اونٹ مکہ معظمہ لایا۔ ابوجہل نے خرید لیے گر قیمت دینے میں ٹال مٹول کرنے لگا سرداران قریش کے ایماء پر وہ نص اللہ تعالی کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس کے ساتھ ابوجہل کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے عمرو! اس کا حق ادا کرو۔ ابوجہل سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ اندر گیا اور قیمت لاکر دے دی۔ دیکھنے والوں کا یہ کہنا تھا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کو دیکھتے ہی ابوجہل کا رنگ فق ہوگیا ہوں گاتا تھا جیسے اس میں جان باقی نہیں رہی۔ بلاذری نے اس سلسلے میں ایک اور واقع بھی قلمبند کیا ہے۔

ایک شخص مکہ معظمہ میں تین اونٹ فروخت کی غرض سے لایا ۔ ابوجہل نے ان کی قیمت لگائی اور لوگوں کوع کر دیا کہ اس سے زائد قیمت ادا نہ کریں۔ وہ خص پریشانی کے عالم میں رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ابوجہل نے اس کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے اور اس کم قیمت پر اونٹ بیچنا اس کے لیے سخت نقصان کا باعث ہو گا۔ آپ نے ابوجہل کی موجودگی میں جائز قیمت پر وہ اونٹ خرید فرمائے، قیمت ادا کر دی اور ابوجہل کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا خبردار جو آئندہ ایسی حرکت کی‘‘ ابوجہل نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسا نہ کرے گا۔

ان واقعات سے حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ آنحضور صرف یہ کہ لوگوں کی مالی امداد فرماتے اور ان کی ضروریات پوری فرماتے تھے بلکہ اصول کاروبار اور تجارت کو فروغ دینے میں بھی بھر پور حصہ لیتے اور زیادتی کرنے والے کو زیادتی سے باز رکھتے۔ معاشرتی زندگی میں اس طرح کا کردار نہ صرف معاشرتی زندگی کو صحت مند فضا مهیا کرتا ہے بلکہ معاشی جدوجہد میں سہولت اور آسانی کا رجحان بڑھتا ہے یوں امیروں کے ساتھ غریب لوگ بھی کاروبار کرنے کا حوصلہ پاتے ہیں۔

 

 

 

Post a Comment

0 Comments