Nabi Paak ki Olad sy Muhabat | Children Love of Holly Prophet - Earn And Earn

Nabi Paak ki Olad sy Muhabat | Children Love of Holly Prophet - Earn And Earn

 اولاد سے  محبت

آنحضورصلی الله علیه وسلم کو اپنی اولاد سے بے پناہ محبت تھی اور آپ نے مختلف مواقع پر اپنی اس محبت کا اظہار بھی کیا آپ نے اپنی اولاد سے جس محبت اور شفقت کا اظہار کیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا کرتا تو کل ، بزرگی اور پیغمبری کے خلاف نہیں۔ یہ تو فطری جذبہ ہے اور ہر شخص میں موجود ہوتا ہے۔ جو لوگ اس فطری جذبے کا اخبار نہیں کرتے وہ اپنی طبیعت پر جبر کرتے ہیں، حالانکہ محبت میں بیل برتا و شخصی کمزوری کی علامت ہے۔ نبی کر یم چونکہ کامل او مکمل شخصیت کے مالک تھے ۔ لہذا اس معاملے میں بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات مکمل رہنمائی کا سامان فراہم کرتی ہے۔

نبی اکرم خیر کی اس محبت سے آپ کے بیٹے جو بچپن میں فوت ہو گئے تھے ، شادی شدہ بیٹیاں ، نواسے نواسیاں اور دام سب ہی بہرہ اندوز ہوئے۔ جب آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی پیدائش کی خبر سنی تھی تو خبر سنانے والے کو ایک غلام عطا کیا تھا، پچ کا عقیقہ کیا اور سر کے بالوں کے برابر چاندی بطور صدقہ عطا کی تھی۔ حضرت انس پیش بن مالک سے روایت ہے کہ صبح کے وقت رسول ام از حرم سے باہر نکل کر ہمارے پاس آئے اور فرمایا آج شب کو میرے ہاں گز کا ہوا ہے اور میں نے اپنے باپ کے نام پر اس کا نام ابراہیم رکھا ہے۔ حضرت انس بی بی سے روایت ہے کہ

” میں نے کسی کو اپنے خاندان سے اس قدر محبت کرتے نہیں دیکھا جس قدر آپ نے کیا کرتے تھے آپ کے صاحبزادے ابراہیم عوائی میں پرورش پارہے تھے جو مدینہ منورہ سے تین چار میل دور ہے ۔ ان کے دیکھنے کے لیے مدینہ منورہ سے باہر جاتے۔ گھر میں وتواں ہوتا مگر آپ بچے کو اتار کے ہاتھ سے لے لیتے اور منہ چومتے پھر مدینہ منورہ کووا پس آ جاتے۔"

 جب آپ ان کے ان صاحبزادے کا انتقال ہوا تو فرط غم سے نبی اکرم کے آنسو نکل آئے اور آپ و نے اختیار رونے لگے اس سے آپ ان کی شدید محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت انس خان سے روایت ہے کہ:جب ہم آنحضور ان کے ہمراہ ابو یوسف لوہار کے گھر پہنچے۔ وہ ابراہیم کی رضائی ماں کے شوہر تھے۔ ابراہیم کو رسول اللہ نے اٹھایا۔ ان کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر بوسہ دیا۔ پھر اس کے بعد ہم ابو یوسف کے ہاں گئے تو ابراہیم جانگنی کے عالم میں تھے۔ رسول الله کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے ۔ عبدالرحمن بن عوف نے عرض کیا۔ یارسول اللہ! آپ رورہے ہیں ۔ فرمایا ! این عوف کی شفقت و رحمت ہے۔ آپ اور پھر رو دیئے اور فرمایا ! آ نکھ روتی ہے اور دل ملین ہے اور ہم نہیں کہتے مگر وہی بات جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ اے ابراہیم ! ہم تمہارے فراق کے باعث ملین ہیں۔ آپ ان کو اپنی صاحبزادیوں سے جو محبت تھی اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے کہ آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر بدر سے قید ہو کر آئے تو فدیہ کی رقم ادا نہ کر سکے تو گھر کہلا بھیجا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے گلے کا ہار اتار کر بھیج دیا۔ جب آنحضور نے دیکھا تو بیٹی کی محبت سے بے تاب ہو گئے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ پھر صحابہ کرام ان سے فرمایا کہ اگر تمہاری مرضی ہوتو زینب رضی الله عنہا کو یہ ہار وائیں بھیج دوں ۔ سب نے منظور فرمایا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کو اپنی تمام بیٹیوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ جس کا اظبار مختلف مواقع پر ہوا۔ آپ نے فرمایا

(( فاطمة بضع متى قمم ابنها قد اصبی))

فاطمہ میر سے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ آپ کا معمول تھا کہ جب آپ سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے لے کر جاتے اور جب سفر سے آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے تھے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آپ کی خدمت میں تشریف لائیں تو آپ کھڑے ہو جاتے ان کی پیشانی چومتے ، اور اپنی نشست گاہ سے ہٹ کر اپنی جگہ بٹھاتے۔ لیکن اس کے باوجود نبی کریم نے ان کے لیے دنیا کی آسائشوں کا سامان فراہم نہ کیا وہ انتہائی عسرت کی زندگی بسر کرتی تھیں ۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ، گھر میں جھاڑو دیتے دیتے کپڑے چکٹ ہو جاتے ، چولہے کے پاس بیٹھے بیٹھے کپڑے دھوئیں سے سیاہ ہو جاتے۔

ایک مرتبہ انہوں نے اپنے ہاتھوں کے چھالے دکھا کر ایک لونڈی مانگی تھی لیکن آپ نے فرمایا : بیٹی ! ابھی تو منہ کے مساکین کا کوئی انتظام نہیں ہوا۔ آپ کو اپنے نواسوں اور نواسیوں سے بھی بے انتہا محبت تھی۔ محبت کے اس فطری جذبے کے اظہار سے آپ نے بھی دریغ نہیں کیا۔ جب آپ کے نواسے عبد الله بن عنان بنانے کا انتقال ہوا تو آپ نے انہیں اپنی گود میں اٹھا لیا اور بے اختیار آنسو ان پر گرنے لگے ۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت عثان نه نے قبر میں اتارا آپ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی امامہ سے بہت پیار تھا۔ ابوق او د کا بیان ہے کہ:

ہم مسجد نبوی میں حاضر تھے کہ رفعت رسول الله امامی کو کندھے پر چڑھائے ہوئے تشریف لائے۔ اسی حالت میں نماز پڑھی ۔ جب رکوع میں جاتے تو انہیں اتار دیتے ، پھر کھڑے ہوتے تو چڑھا لیتے ۔ اسی طرح پوری نماز تمام کی‘‘۔ 

 اسی طرح نبی اکرم شیر کو اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین سے بے انتہا پیار تھا۔ ان کو گود میں الانتے ،ان کے لیے دعا فرماتے ، ان کی تعریف کرتے اور اپنے رفقاء کو ان سے محبت کرنے کی تلقین کرتے۔

ایک مرتبہ رب کا ایک رئیس اقرع بن حابس رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت حضرت حسین پناہ کا منہ چوم رہے تھے۔ عرض کیا: میرے دو بچے ہیں میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ فرمایا " جو اوروں پر نہیں کرتا اس پر کوئی بھی رت نہیں کرتا۔ آپ حضرت امام حسین اور امام حسن کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ دونوں میرے گلدستے ہیں۔

ایک مرتبہ نبی کریم پر خطہ فرما رہے تھے۔ اتفاق سے حسین ماه سرخ کرتہ پہنے ہوۓ آئے۔ کم سنی کی وجہ سے ہر قدم پرلڑکھڑا جاتے تھے۔ آپ ن ے ضبط نہ ہو سکا۔ منبر سے اتر کر گود میں اٹھا لیا اور پھر اپنے سامنے بجلی اور فرمایا، خدا تعالی نے پچ کہا ہے کہ:

( إنما اموالكم و أولادكم فتنة)

ابن عمری سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: الحسن والحسين هما ریحائى الدنيا حسن اور حسین میری دنیا کے دو پھول ہیں“۔

ایک مرتبہ آنحضور کہیں دعوت میں جارہے تھے۔ امام حسین نه راستے میں کھیل رہے تھے۔ آپ نے آگے بڑھ کر ہاتھ پھیلا دیے۔ وہ ہنستے ہوئے قریب آ کر نکل جاتے۔ بالآخر آپ نے ان کو پکڑ لیا۔ ایک ہاتھ تھوڑی پر اور ایک منہ پر رکھ دیا۔ سینے سے لپٹایا اور فرمایا:

 ( حسین منی و انا من الحسین)

نبی کریم حضرت حسین اور حضرت حسن دار کو اپنی گود میں لیتے اور پھر فرماتے: اے اللہ تعالی ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ۔ .. ابوسعید نے کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:

(( الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة)) , حسن حسین نوجوانان جنت کے سردار ہیں۔

آنحضور صلى الله عليه وسلم کی محبت کے ہی مظاہرآپ کی شخصیت کے خدوخال واضح کرتے ہیں۔ عرب کے اس معاشرے میں جہاں کوئی اپنی اولاد پرنظر التفات تک نہ ڈالا کرتا تھا۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے انہیں بچوں سے محبت و شفقت کا درس دیا اور اس کا ملی مظاہرہ بھی پیش کیا۔

 

 

  If you are Looking For govt jobs 2023 The click Here and go to Govt jobs 2023 / The Job Hunt

 

Post a Comment

0 Comments